آخر وہ اضطراب کے دن بھی گزر گئے
جب دل حریفِ آتش قہر و عتاب تھا
جاں دوستوں کی چارہ گری سے لبوں پہ تھی
سر دشمنوں کی سنگ زنی سے عذاب تھا
دامن سگانِ کوئے محبت سے تار تار
چہرہ خراشِ دستِ جنوں سے خراب تھا
واں اعتماد مشق سیاست کی حد نہ تھی
یاں اعتبار نالۂ دل بے حساب تھا
ہر بات صوفیوں کی طرح پیچ و خم لیے
ہر لفظ شاعروں کی طرح انتخاب تھا
ہر جلوہ ایک دفتر آشوب روزگار
ہر غمزہ علم فتنہ گری کی کتاب تھا
خوابیدہ ہر نظر میں بنائے فسادِ خلق
پوشیدہ ہر روش میں نیا انقلاب تھا
آج اس غزل میں ہم پہ قیامت گزر گئی
کیا گرمیٔ خیال تھی، کیا التہاب تھا
وارث کرمانی
No comments:
Post a Comment