پلکوں پہ آ کر لرزے آنسو
آہ, کیا سوچ کر ٹھہرے آنسو
دل کے جن کو سمجھا تھا پتھر
آنکھوں میں ان کی دیکھے آنسو
جھانکا تھا اک یاد نے ماضی سے
اور تنہائی میں بہنے لگے انسو
آنکھوں میں ہماری بے وقعت آب
ان آنکھوں کے موتی بنے آنسو
ٹھکانہ آخری ہے یہی ان کا تو
پلکوں پہ اک ساعت رکے آنسو
اشکِ غم بدل جائے خوشی میں
اگر وہ کبھی مِرے پونچھے آنسو
پھوٹا ہو گا آبشار سنگِ دل سے
بے تحاشا ورنہ کیوں امڈتے آنسو
یادیں خوابوں میں رلاتی ہوں گی
ورنہ یونہی کیسے تکیہ بھگوتے آنسو
چوٹیں گہری ہی لگیں دل پہ ندیم
بہاروں میں جو گرنے لگے آنسو
احمد ندیم جونیجو
No comments:
Post a Comment