فکر و فن کے چہرے پر بے حسی کا عالم ہے
آدمی پریشاں ہے،۔ زندگی بھی برہم ہے
چشمِ مےگساراں کیوں اس طرح سے پُرنم ہے
کیا نظامِ مے خانہ ان دنوں بھی برہم ہے
کیوں مِرے فسانے میں ان کا ذکر مبہم ہے
جن کی بے وفائی کا ہر قدم پہ ماتم ہے
حسنِ گل بداماں ہے عشق بھی مجسم ہے
آئینہ مقابل ہے ان کی زلف پُر خم ہے
جشنِ بے ثباتی میں ہر طرف چراغاں ہے
اور کوچۂ دل میں تیرگی کا عالم ہے
آؤ دل کو بہلا لیں فصلِ گل کی آمد پر
پھر لہو سے کھیلیں گے، یہ گلوں کا موسم ہے
کس طرح سے پہنچیں گے آج کوئے جاناں ہم
اب تو ہم اکیلے ہیں روشنی بھی مدھم ہے
بسمل اعظمی
No comments:
Post a Comment