Thursday 25 November 2021

سفر طویل ہے میرا ہمسفر کوئی بھی نہیں

 سفر طویل ہے میرا ہمسفر کوئی بھی نہیں

سر و سامان نہیں چارہ گر کوئی بھی نہیں

ہر ایک چہرے پہ چہرہ ہر ایک بات میں بات

ہے ایسے شہر میں جینا ہنر کوئی بھی نہیں

یوں بے سبب نہیں مرتا کوئی کسی کے لیے

محبتوں کا سوداگر بشر کوئی بھی نہیں

تو لازمی ہے کہ اس شہر سے نہیں ہو گا

کہ تجھ پہ شہر کا دِکھتا اثر کوئی بھی نہیں

وہ ایک شخص جو کل رات تھا اذیت میں

مدد کو اُس کے گیا رات بھر کوئی بھی نہیں

جو خوش تھا وہ تو ہر اک شخص دوست تھا اُس کا

اداس ہے تو اب اُس کے گھر کوئی بھی نہیں

تُو لکھ رہا ہے جس کے لیے سبھی دانی

وہ پڑھ بھی لے تو ہو گا اثر کوئی بھی نہیں


فقیر دانیال بیگ 

دانیال بیگ دانی

No comments:

Post a Comment