تنہائی کی قبر سے اٹھ کر میں سڑکوں پر کھو جاتا ہوں
چہروں کے گہرے ساگر میں مُردہ آنکھیں پھینک آتا ہوں
میں کوئی برگد تو نہیں ہوں صدیوں ٹھہروں اس دھرتی پر
دُھند میں لپٹے خوابوں کا قد لمحہ لمحہ ناپ رہا ہوں
وہ تو جُھوٹ کی چادر اوڑھے پھیلا ساگر پھاند چکا ہے
میں ہی سچ کی مالا جپتے اس دھرتی میں ڈُوب رہا ہوں
پانی کی موجوں پہ لکھی ہے لمحوں کی بے روح کہانی
کیا پایا ہے کیا کھویا ہے میں صدیوں سے کھوج رہا ہوں
اعظمی! اپنی یہ دُنیا🌍 ہو جیسے کوئی بُھول بُھلیاں
دُھند میں لپٹے خوابوں ہی سے آنکھ مچولی کھیل رہا ہوں
یوسف اعظمی
No comments:
Post a Comment