Saturday, 27 November 2021

ہر ساتھ گزری رات کو ہلکا لیا گیا

 ہر ساتھ گزری رات کو ہلکا لیا گیا

سارے معاملات کو ہلکا لیا گیا

نا آشنا نہ تھے مِرے حالات سے مگر

پھر بھی مِری بساط کو ہلکا لیا گیا

کچھ سوچ کر ہی آیا تھا دہلیز پر تِری

محفل میں جس کی بات کو ہلکا لیا گیا

کل تک بہت لگاؤ تھا ناچیز سے تمہیں

کیوں آج میری ذات کو ہلکا لیا گیا

سج دھج کے آج آئے ہو میت پہ تم مِری

یعنی مِری وفات کو ہلکا لیا گیا


کاظم علی

No comments:

Post a Comment