تشنگی کو بڑھا گئیں آنکھیں
قلبِ مضطر کو بھاگئیں آنکھیں
پیاس ساری بجھا گئیں آنکھیں
"اپنا جلوہ دکھا گئیں آنکھیں “
اس کا نظریں چُرا کے شرمانا
مجھ کو پاگل بنا گئیں آنکھیں
حادثہ ایسا تو ہوا ہی نہیں
خواب کیسےدکھا گئیں آنکھیں
بے وجہ نظریں میں ملا بیٹھا
جامِ فرقت پلا گئیں آنکھیں
زیست اپنی سنوار لی، ورنہ
اے ندیم ہم کو کھا گئیں آنکھیں
احمد ندیم جونیجو
No comments:
Post a Comment