درد و دارو کے تخیل کا جھمیلا شاعر
فکر کے دشت میں پلتا ہے بگھیلا شاعر
نسل معدوم تھی آشفتہ سروں کی جب ہی
عرش سے رب نے سرِ خاک دھکیلا شاعر
درد زادوں کے سکوتوں کی وضاحت کر کے
سو خرابوں کو رِجھاتا ہے اکیلا شاعر
شدتِ زور کیوں بھانپے جو فقط ٹوٹنا ہے
ریت لگنے سے گرے ریت کا ڈھیلا، شاعر
سینکڑوں لوگ ملاتا ہے، گنوا دیتا ہے
کن کی تشریح، کہیں کمبھ کا میلہ شاعر
علی پیر عالی
No comments:
Post a Comment