Wednesday 24 November 2021

یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے

 یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے

اک طرفہ تماشا ہے کہ درپیش مجھے ہے

میں پہلے تجھے چُھو کے گنہگار بنوں کیوں

جو حکم تجھے ہے وہی آدیش مجھے ہے

تجھ کو بھی میرے دیس کی حرمت کا ہو احساس

اس شرط پہ منظور تیرا دیش مجھے ہے

تُو ساتھ میرے ڈوبتا جائے گا کہاں تک

اک غم کا سمندر ہے جو درپیش مجھے ہے

وہ خوش ہے بہت جلد بھلا کر مجھے توقير

ہا ہا، یہی عادت تو کم  و بیش مجھے ہے


توقیر رضا

No comments:

Post a Comment