یہ شہر جو سمجھے ہوئے درویش مجھے ہے
اک طرفہ تماشا ہے کہ درپیش مجھے ہے
میں پہلے تجھے چُھو کے گنہگار بنوں کیوں
جو حکم تجھے ہے وہی آدیش مجھے ہے
تجھ کو بھی میرے دیس کی حرمت کا ہو احساس
اس شرط پہ منظور تیرا دیش مجھے ہے
تُو ساتھ میرے ڈوبتا جائے گا کہاں تک
اک غم کا سمندر ہے جو درپیش مجھے ہے
وہ خوش ہے بہت جلد بھلا کر مجھے توقير
ہا ہا، یہی عادت تو کم و بیش مجھے ہے
توقیر رضا
No comments:
Post a Comment