کشمکش
سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ میرے رنج ومصائب کا مداوا تو نہ تھی
رنگ افشاں تھی مرے دل کے خلاؤں میں مگر
ایک عورت تھی علاجِ غم دنیا تو نہ تھی
میرے ادراک کے ناسور تو رستے رستے
میری ہو کر بھی وہ میرے لئے کیا کر لیتی
حسرت ویاس کی گمبھیر اندھیرے میں بھلا
اک نازک سی کرن ساتھ کہاں تک دیتی
اس کو رہنا تھا زرو سیم کے ایوانوں میں
رہ بھی جاتی وہ مرے ساتھ تو رہتی کب تک
ایک مغرور سہو کار کی پیاری بیٹی
ہوک اور پیاس کی تکلیف کو سہتی کب تک
ایک شاعر کی تمناؤں کو دھوکہ دے کر
اس نے توڑی ہےاگر پیار بھرے گیت کی لے
اس پہ افسوس ہے کیوں،اس پہ تعجب کیسا
یہ محبت بھی تو احساس کا اک دھوکہ ہے
پھر بھی انجانے میں جب شہر کی راہوں میں کبھی
دیکھ لیتا ہوں میں دوشیزہ جمالوں کے ہجوم
روح پر پھیلنے لگتا ہےاداسی کا غبار
ذہن میں رینگنے لگتے ہیں خیالوں کے ہجوم
سوچتے سوچتے پھر مجھ کو خیال آتا ہے
وہ میرے رنج ومصائب کا مداوا تو نہ تھی
رنگ افشاں تھی مرے دل کے خلاؤں میں مگر
ایک عورت تھی علاجِ غم دنیا تو نہ تھی
نریش کمار شاد
No comments:
Post a Comment