بنا مطلب کی وحشت ہو رہی ہے
کوئی حالت میں حالت ہو رہی ہے
غموں کا اس قدر عادی ہوا ہوں
کہ اب خوشیوں سے دہشت ہو رہی ہے
تجھے وحشت میں گالی بک رہا ہوں
پھر اس حالت پہ حیرت ہو رہی ہے
تِرے احساس پاگل ہو گئے ہیں
سرابوں سے شکایت ہو رہی ہے
گزاری جا رہی ہے زندگی یوں
کسی بیوہ کی عِدت ہو رہی ہے
نگاہ خشک سے رونا پڑے گا
یہاں پانی کی قلت ہو رہی ہے
بھلے شاعر سخن نہ کر سکیں گے
غلیظ و بد نظامت ہو رہی ہے
مِرے اندر جو اک پاگل ہے شارق
اسی کی ہے جو ہمت ہو رہی ہے
شارق قمر
No comments:
Post a Comment