Wednesday, 24 November 2021

بنا مطلب کی وحشت ہو رہی ہے

بنا مطلب کی وحشت ہو رہی ہے

کوئی حالت میں حالت ہو رہی ہے

غموں کا اس قدر عادی ہوا ہوں

کہ اب خوشیوں سے دہشت ہو رہی ہے

تجھے وحشت میں گالی بک رہا ہوں

پھر اس حالت پہ حیرت ہو رہی ہے

تِرے احساس پاگل ہو گئے ہیں

سرابوں سے شکایت ہو رہی ہے

گزاری جا رہی ہے زندگی یوں

کسی بیوہ کی عِدت ہو رہی ہے

نگاہ خشک سے رونا پڑے گا

یہاں پانی کی قلت ہو رہی ہے

بھلے شاعر سخن نہ کر سکیں گے

غلیظ و بد نظامت ہو رہی ہے

مِرے اندر جو اک پاگل ہے شارق

اسی کی ہے جو ہمت ہو رہی ہے


شارق قمر

No comments:

Post a Comment