Wednesday, 24 November 2021

دکھنے سے تو لگتا ہے امیروں کی طرح ہوں

دکھنے سے تو لگتا ہے امیروں کی طرح ہوں

پر عشق میں تیرے میں فقیروں کی طرح ہوں

مدت ہوئی خوشیوں کو ترستا ہوں ابھی تک

مفلس کے میں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ہوں

جو اپنے کیے جرم پہ ہوں مطمئن سدا

ہاں میں بھی محبت کے اسیروں کی طرح ہوں

تم میری محبت کی عمر قید میں ہو اب

اور میں تیری گردن میں زنجیروں کی طرح ہوں

اکثر وہ مجھے پیار سے رانجھا ہے بلاتی

پھر خود کو بھی کہتی ہے میں ہیروں کی طرح ہوں

مجبور ہوں اور عشق کی راہوں پہ چلا ہوں

بے بس ہوئے اک شخص کی نیروں کی طرح ہوں

سچ پڑھتا ہوں، سچ کہتا ہوں، سچ لکھتا ہوں نوید

ہر جھوٹ کی آنکھوں میں میں تیروں کی طرح ہوں


نوید عباس

No comments:

Post a Comment