دکھنے سے تو لگتا ہے امیروں کی طرح ہوں
پر عشق میں تیرے میں فقیروں کی طرح ہوں
مدت ہوئی خوشیوں کو ترستا ہوں ابھی تک
مفلس کے میں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ہوں
جو اپنے کیے جرم پہ ہوں مطمئن سدا
ہاں میں بھی محبت کے اسیروں کی طرح ہوں
تم میری محبت کی عمر قید میں ہو اب
اور میں تیری گردن میں زنجیروں کی طرح ہوں
اکثر وہ مجھے پیار سے رانجھا ہے بلاتی
پھر خود کو بھی کہتی ہے میں ہیروں کی طرح ہوں
مجبور ہوں اور عشق کی راہوں پہ چلا ہوں
بے بس ہوئے اک شخص کی نیروں کی طرح ہوں
سچ پڑھتا ہوں، سچ کہتا ہوں، سچ لکھتا ہوں نوید
ہر جھوٹ کی آنکھوں میں میں تیروں کی طرح ہوں
نوید عباس
No comments:
Post a Comment