نظر کی حد پہ چراغِ ثبات جلتا ہے
مِرا سراب مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
میں ایک وصل کا ٹُوٹا ہُوا ستارہ ہوں
فراق روز مِرا زائچہ بدلتا ہے
ضرور کوئی پرندہ اسیر ہے مجھ میں
یہ دل جو نوبتِ پرواز کو مچلتا ہے
ہو اُس سے کوئی شکایت مجھے بھلا کیسے
بچھڑ کے وہ بھی تأسف سے ہاتھ ملتا ہے
ہے آئینہ بھی مِرے شمعداں کے پاس کوئی
وگرنہ ایسے مِرا موم کب پگھلتا ہے
نجانے کس کی جُدائی کا خوف ہے کاشف
کہ کھُل کے سامنے آتا ہے اور نہ ٹلتا ہے
کاشف رحمان
No comments:
Post a Comment