Wednesday, 24 November 2021

تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف

 تمام اجنبی چہرے سجے ہیں چاروں طرف

مِری بہشت میں کانٹے اگے ہیں چاروں طرف

لہو میں ڈوبے ہوئے دائرے ہیں چاروں طرف

میں کیسے جاؤں کہیں حادثے ہیں چاروں طرف

کتاب درد کی پڑھ کر سنا رہی ہے حیات

اور آنسوؤں کے فرشتے کھڑے ہیں چاروں طرف

چلو یہ خوب ہوا آئینہ جو ٹوٹ گیا

اب عکس میرے ہی بکھرے ہوئے ہیں چاروں طرف

تِرا خیال جب آیا دکھوں کے صحرا میں

مجھے کچھ ایسا لگا گل کھلے ہیں چاروں طرف

کبھی ندی کے بدن پر کبھی فضاؤں میں

ہوا نے میرے قصیدے لکھے ہیں چاروں طرف

نہ میری آنکھوں میں نیندیں نہ خواب کی پریاں

فراق ازل سے یہاں رت جگے ہیں چاروں طرف


فراق جلالپوری

No comments:

Post a Comment