آج ہر دن یہاں عبرت کی گھڑی ہے یارو
کیا یہی وقت کی سوغات بڑی ہے یارو
بے بسی تیرہ شبی اپنا مقدر تو نہیں
بحرِ ظلمات میں بھی جنگ لڑی ہے یارو
ہم نے ہر عہد کو تحریکِ سفر دی لیکن
زندگی پھر بھی سرِ راہ کھڑی ہے یارو
سب کے سب اپنے گھروندوں میں پڑے ہیں بے حس
روشنی کون کرے کس کو پڑی ہے یارو
جو بھی کرنا ہے اسے کل پہ نہ چھوڑو کر لو
وقت ضائع نہ کرو موت کھڑی ہے یارو
دور منزل ہے، کٹھن راہ، مسافر بسمل
خوف رہزن کا بھی ہے دھوپ کڑی ہے یارو
بسمل اعظمی
No comments:
Post a Comment