تپتے صحراؤں کی آنکھوں کو نمی دے دی گئی
زندگی مانگی گئی تھی، زندگی دے دی گئی
میرے لب پر آ گیا تھا آخرش یہ کس کا نام
رات کی تاریکیوں کو روشنی دے دی گئی
ہم نے سوچا تھا فقط اس کو ابھی دیکھا نہ تھا
ایک عرصے کے لیے اک بے خودی دے دی گئی
اب ہمارے ہمسفر ہیں کس لیے سہمے ہوئے
اب تو ساری مشکلوں کو مات بھی دے دی گئی
جس کے آنگن سے ہواؤں کا گزر بالکل نہ تھا
اس کو رہنے کے لیے بارہ دری دے دی گئی
تجھ سے بچھڑے تو تِری یادوں کا سرمایہ ملا
اک خوشی لے لی گئی تھی اک خوشی دے دی گئی
قتلِ ناحق کی صدا پر بھی نہیں چونکا ہے آج
اِس زمانے کو یہ کیسی بے حسی دے دی گئی
میں نے جب بھی کرنا چاہی جرأتِ اظہارِ غم
میرے ہونٹوں کی اداسی کو ہنسی دے دی گئی
ان چراغوں کو تکبّر ہو گیا ہو گا ریاض
ناگہاں جن کو ہوائے تندہی دے دی گئی
ریاض حنفی
No comments:
Post a Comment