وہ چاہے رُوپ نیا کوئی اختیار کرے
اب اس سے کون تعلق پھر استوار کرے
نکل کے آتی ہے دل کے گُلاب خانے سے
وہ بات سُوکھی زباں کو جو آبدار کرے
کبھی تو سچ بھی دِکھائے یہ آئینہ خانہ
کبھی تو ظُلم و ستم اس کے آشکار کرے
وہ جس کا قلب اُجالے بہم نہ پہنچائے
وہ مہر و ماہ کے ہونے پہ انحصار کرے
میں شام ڈھلنے سے پہلے ہی لوٹ آؤں گا
غنیمِ شب سے کہو؛ میرا انتظار کرے
سبھی تو مہرِ جہاں تاب کھا گئے لمحے
بدلتے وقت! تِرا کون اعتبار کرے؟
جنید رضوی
No comments:
Post a Comment