Saturday 27 November 2021

ہے سیاست تو شب و روز تماشا ہو گا

 ہے سیاست تو شب و روز تماشا ہو گا

امن کے نام پہ بارود کا سودا ہو گا

سب نے کل رات یہی خواب میں دیکھا ہو گا

مرغ بولے گا ابھی اور سویرا ہو گا

جانے کس طرح سے رات اس نے گزاری ہو گی

ماں نے جب بچے کو بھوکا ہی سلایا ہو گا

آج کے دور کی تہذیب کے معنی کیا ہیں

دیکھنے والوں نے ٹی وی پر تو دیکھا ہو گا

میں نہ کہتا تھا کہ چوسر کی ہر اک بازی پر

وقت پنچالی کے آنچل سے ہی لپٹا ہو گا

فرقہ بندی کی یہ تعویذ نہ کام آئے گی

شہر میں جب کسی آسیب کا سایہ ہو گا

آم کا پیڑ سہی اتنا نہ دو خون اسے

ورنہ پھل اس کا کریلے سے کسیلا ہو گا

فلسفہ ہو گی اگر بھوک ترے مکتب میں

پیاس کے نام سے پانی بھی معمہ ہو گا

کھل گئی ہو گی مجاز اس پہ حقیقت ساری

اس نے جب خود کو میری آنکھ سے دیکھا ہو گا


مجاز انصاری

نیاز احمد 

No comments:

Post a Comment