اے گل خزاں کا وقت بھی کچھ تو شمار کر
پھر اس کے بعد شوق سے فکرِ بہار کر
دریائے عشق کا بڑا الٹا مزاج ہے
پہلے تو سیکھ ڈوبنا پھر اس کو پار کر
صحرا نواز ہے تِرا محسن تو کیا ہوا
اے دل تو تشنگی کو ذرا ہوشیار کر
مفلس ہوا غریب ہوا، قیس ہو گیا
چرچے ضرور ہوں گے تِرے انتظار کر
تجدید فکر کی بھی ضروری ہے اس لیے
پہلے جو ہو چکا ہے اسے بار بار کر
اب وقت جا چکا ہے دوا کام کی نہیں
کس نے کہا مرض پہ میاں اعتبار کر
شاہد مجھے فراق سے انکار تو نہیں
میں نے تو بس کہا ہے ذرا اختصار کر
شاہد عباس
No comments:
Post a Comment