Friday 26 November 2021

دیار عشق میں محشر بپا تھا

 دیارِ عشق میں محشر بپا تھا 

کسی کی آنکھ سے آنسو گِرا تھا 

لگی تھی آگ سارے پانیوں میں 

کلی نے قطرۂ شبنم چُھوا تھا 

گِرا طوفاں کے آگے بے بسی سے 

ضرورت سے شجر اونچا ہُوا تھا

کہاں اب لوٹ کے آئے گا وہ دن 

کسی نے جب مجھے اپنا کہا تھا

رخِ زیبا کے ہونے روبرو سے

خوشی سے جھومتا ہر آئینہ تھا

میں زنداں میں مقیّد تھا و لیکن

خیالِ یار کا روزن کُھلا تھا

جہاں پر لوگ منت مانگتے تھے

وہ میرے دلبراں کا نقشِ پا تھا

میسر تھا نہیں پانی کہیں پر

کہ دریا آنکھ میں اُترا ہوا تھا


اشتیاق احمد یاد

No comments:

Post a Comment