آنکھ سے اشک گرا، اشک سے تصویر ہوئی
یوں زمانے میں مِرے رنج کی تشہیر ہوئی
پہلے پہلے تو فقط عشق ہُوا کرتا تھا
یہ اُداسی تو بہت بعد میں تعمیر ہوئی
مجھ کو معلوم ہے یا میرا خدا جانتا ہے
کِن وسائل سے مِرے خواب کی تعبیر ہوئی
بے زباں دل کے ارادوں کو زباں دیتے ہوئے
اس کو بھی وقت لگا مجھ سے بھی تاخیر ہوئی
وہ محبت جسے نادانی میں اپنایا تھا
آخرِ کار وہی پاؤں کی زنجیر ہوئی
سبحان خالد
No comments:
Post a Comment