کوئی ترکیب کارگر نہ ہوئی
عمر ہنستے ہوئے گزر نہ ہوئی
وصلِ خورشید کو لگا گِرہن
پھر شبِ ہجر کی سحر نہ ہوئی
صرف ٹوٹی روانی دھڑکن کی
کُل اذیت بھی دار پر نہ ہوئی
واقفِ حال شہر سارا ہے
اک ستمگر تجھے خبر نہ ہوئی
رنج جھیلے ہزار غم بھی ملے
زندگی پھر بھی مختصر نہ ہوئی
کچھ مقدر نے پھیر لی آنکھیں
کچھ دعا میری با اثر نہ ہوئی
لاکھ میں نے جتن کیے ہیں سحر
پر اداسی اِدھر اُدھر نہ ہوئی
سحر نورین
No comments:
Post a Comment