Friday 26 November 2021

کوئی لمحہ جو تری یاد سے خالی جائے

 کوئی لمحہ جو تِری یاد سے خالی جائے

اُسی لمحے کو میری روح نکالی جائے

تِرے جیسا جو کوئی اور حسیں ہے ہی نہیں

تِرے چہرے سے نظر کیسے ہٹا لی جائے

ہوں مخاطب جو کبھی حُسن کے پیکر سے میں

مجھ پہ لازم ہے کہ تب نظر جھکا لی جائے

تیری محفل میں میری جان کو آ جاتی ہے

سامنے تُو ہو تو نہ جان سنبھالی جائے

کس طرح یاد کروں چھوڑ کے جانا تیرا

یہی بہتر ہے تیری یاد مٹا لی جائے

تُو اگر چھوڑ گیا ہے تو مِرا حق ہے دانی

تِری ہر یاد کو اب آگ لگا لی جائے


فقیر دانیال بیگ 

دانیال بیگ دانی

No comments:

Post a Comment