Friday, 26 November 2021

پابند غم الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی

 پابندِ غمِ الفت ہی رہے گو درد دہنداں اور سہی

اشکوں کی روانی تھم نہ سکی آنکھوں کے تھے ارماں اور سہی

آدابِ چمن انجام تو دے، گل سے نہ ہٹا تتلی کو صبا

الفت کی حیا محفوظ رہے گو تجھ میں ہوں طوفاں اور سہی

ہو سعئ کرم غیروں پہ اگر، اپنوں پہ مذاق عام نہ ہو

ہم راہ میں ہیں ٹھوکر ہی تو دے منزل کے ہوں شایاں اور سہی

اس دشتِ وفا میں قیس بھی ہے اور شیخ بھی ہے مشتاق ملن

جو وصل نہیں تو کیا غم ہے، کچھ لمحے عباراں اور سہی

اک گل جو گِرا برنائی میں، بلبل کو یہی افسوس رہا

مشغول رہا غمخواری میں ہوں فصل بہاراں اور سہی

انداز صبا سے واقف ہوں اور ربط بحر سے بھی بالغ

رخ موڑ کے چلنا جینا ہے خواہ اس کے ہوں پایاں اور سہی


عرفان میر

No comments:

Post a Comment