Friday, 26 November 2021

وہ مجھے دے کے بددعا گزرا

 وہ مجھے دے کے بددعا گزرا

حادثہ سوچ پر نیا گزرا

بھاگ نکلے یوں حسن کے پیچھے

عشق ہوتا نہیں گیا گزرا

ہم تغافل کی زد میں ہیں اب کے

چپکے چپکے وہ کج ادا گزرا

میں گریزاں تھی ہر گھڑی اس سے

وہ بھی پل بھر کا آشنا گزرا

شام گزری اداس لہجے میں

وہ بهی مجھ سے خفا خفا گزرا

دھڑکنیں کس کو یاد کرتی ہیں

کون دل سے تِرے سوا گزرا

وہ وظیفوں سا شخص تھا زہرا

قرب اس کا سرِ دعا گزرا


زہرا بتول

No comments:

Post a Comment