وہ مجھے دے کے بددعا گزرا
حادثہ سوچ پر نیا گزرا
بھاگ نکلے یوں حسن کے پیچھے
عشق ہوتا نہیں گیا گزرا
ہم تغافل کی زد میں ہیں اب کے
چپکے چپکے وہ کج ادا گزرا
میں گریزاں تھی ہر گھڑی اس سے
وہ بھی پل بھر کا آشنا گزرا
شام گزری اداس لہجے میں
وہ بهی مجھ سے خفا خفا گزرا
دھڑکنیں کس کو یاد کرتی ہیں
کون دل سے تِرے سوا گزرا
وہ وظیفوں سا شخص تھا زہرا
قرب اس کا سرِ دعا گزرا
زہرا بتول
No comments:
Post a Comment