صورت بنائیے کوئی تازہ وصال کی
حاجت ہے زخم ہجر کو اب اندمال کی
اک زخم ہوں جو زخم ہے تازہ شکست کا
خنکی سے پھٹ رہا ہے جو باد شمال کی
خواہش خرد کے پاؤں پکڑتی ہے بار بار
ہے ملتمس کہ لائیے صورت وصال کی
مجھ پر طلوع کیجۓ قربت کا ماہتاب
اور آفتاب ہجر پہ راحت زوال کی
آئے گی نیند لائے گی خوابوں میں اضطراب
لائے گی اضطراب یہ خوشبو غزال کی
آنکھوں کے کینوس پہ ہے رنگوں کی چاند رات
تصویر بن رہی ہے کسی خوش خصال کی
دانتوں نے لب دبا کے جو کہہ دی ہے دل کی بات
آنکھوں نے اس کی چھوڑ دی عادت سوال کی
ابو لویزا علی
No comments:
Post a Comment