کہیں مٹی، کہیں تصویر پڑی ہے میری
خواب کے طشت میں تعبیر پڑی ہے میری
ہانپتا کانپتا آتا ہوں جو میں اپنی طرف
پسِ عجلت، کوئی تاخیر پڑی ہے میری
روشنی بن کے میں روزن سے نکل بھی آیا
قید میں آج بھی زنجیر پڑی ہے میری
داہنے ہاتھ سرھانے پہ قلم رکھا ہے
پائنتی پر کہیں شمشیر پڑی ہے میری
خاکِ خوابیدہ بھی آواز اٹھانے لگی ہے
خون مہکا ہے کہ تاثیر پڑی ہے میری
میں کروں گا سر نیزہ کسی عالم میں خطاب
نا مکمل کوئی تقریر پڑی ہے میری
میں ذرا دیر سے منظر کا بنوں گا حصہ
ایک ترتیب میں تشہیر پڑی ہے میری
ظلم کو زخم سے منسوخ کیا ہے میں نے
گردنِ تیغ میں تحریر پڑی ہے میری
میرے اجداد نے ورثے میں ورَق چھوڑے ہیں
چند مخطوطوں میں جاگیر پڑی ہے میری
عارف امام
No comments:
Post a Comment