میرے لہجے میں اسے محشر ملا
کیا کروں جو دل مجھے پتھر ملا
جو کتابوں میں نہیں تھا وہ جواب
مجھ کو میری ذات کے اندر ملا
کتنے قابل بچے ہیں دیکھو زرا
جو ملا وہ اپنے سے بہتر ملا
کیا بتاؤں شہر کی ویرانی میں
ڈھونڈنے سے بھی نہ اپنا گھر ملا
اور کیا ہونا ہے یارو! رُوٹھ کر
رُوٹھنے سے صرف دردِ سر ملا
امتحاں دنیا جدا سب کے سوال
کچھ کو غُربت کچھ کو مال و زر ملا
فرحان عباس بابر
No comments:
Post a Comment