کہ رہا ہوں میں تجھے شام و سحر باندھ کے رکھ
تو مسافر ہے یہاں رختِ سفر باندھ کے رکھ
کاٹھ سے تُو نے بنایا ہے اگر پانی پر
موج کا کوئی بھروسہ نہیں گھر باندھ کے رکھ
قابلِ دید ہو جو کچھ تو اسے دیکھ مگر
حدِ آداب میں تو اپنی نظر باندھ کے رکھ
کاٹنے آتا ہے لوگوں کو تِرا پالتو سگ
تُو جہاں رہتا ہے اس کو بھی اُدھر باندھ کے رکھ
تُو نے گر کاٹنا ہے اپنی ضرورت کے لیے
گر نہ جائے کہیں دیوار شجر باندھ کے رکھ
ہم نے مانا کہ تُو فنکار کھرا ہے عادل
پر یہاں قدر نہیں دستِ ہنر باندھ کے رکھ
نوشیروان عادل
No comments:
Post a Comment