Thursday 28 September 2023

اک نظر دیکھ تو لیتے ہمیں جاتے جاتے

 اِک نظر دیکھ تو لیتے ہمیں جاتے جاتے

نفرتوں کی کوئی دیوار گِراتے جاتے

اِتنا تو کرتے کہ کچھ ہم میں تعلق رہتا

دیتے تہمت، کوئی الزام لگاتے جاتے

تم نے دن رات سُلگنے کی سزا دی تھی مجھے

اُنگلیاں راکھ میں اپنی بھی جلاتے جاتے

کوئی دو بول تو ہوتے میری اُلفت کے نام

چُبھتے لفظوں ہی سے بُنیاد اُٹھاتے جاتے

چھوڑتے ہلکی سی اِک درذ تو چلمن کے بیچ

مَیں تکا کرتا تمہیں اُس طرف آتے جاتے

گھول دیتے مِری سانسوں میں محبت کا نشہ

بس شرابوں کو شرابوں میں مِلاتے جاتے

چُوم کر ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا ہوتا

رسمِ دُنیا تھی تو یہ رسم نبھاتے جاتے


محمد عارف

No comments:

Post a Comment