گر جینا ہے آج جیو ناں
یادوں کے رخسار پہ جگتے لمس کی سوگند
سبز رُتوں کی آس میں بیٹھی آنکھ سے پوچھو
ہر اک سانس پہ بھاری شرطیں
دھیر ے دھیرے خواب ہمارے چاٹ گئی ہیں
سانس میں گُھلتے کانچ کے ریزے کس نے دیکھے
بیتے دنوں کی دھوپ میں جلتے خواب سے پوچھو
پل پل گِرتی راکھ کا کیا جو
بُجھتے بُجھتے سبز رُتوں کو پھانک گئی ہے
ایک ادھوری نظم کا شانہ اور برساتیں
سرپٹ بھاگتے لمحوں کی یہ قاتل گھاتیں
وقت کے ہاتھ سے گِرتے پل اب کون سمیٹے
دیکھو کل تک کون جیا ہے
گر جینا ہے آج جیو ناں
شاہین کاظمی
No comments:
Post a Comment