میں تو سُنتا رہوں گا اسے دیر تک
گر تِرا ذکر کوئی کرے دیر تک
میں نے اک بار دعویٰ محبت کا کِیا
بعد میں مجھ پہ پتھر پڑے دیر تک
ہجر کے بعد تُو نے جو نغمے لِکھے
ہم نے وہ سارے نغمے سُنے دیر تک
میں ہوا کے مخالف نہیں ہوں، مگر
جلتے رہتے ہوں سارے دِیے دیر تک
راستہ جو بھی مشکل نظر آتا تھا
اُس کی جانب ہی ہم چلتے تھے دیر تک
سامنا تھا مجھے ایک مدّت کے بعد
ہم نے مِل کر کئے سب گِلے، دیر تک
ساتھ رہنے کے جو خواب ٹوٹے تھے تب
ہم نے دانش دوبارہ بُنے دیر تک
دانش علی
No comments:
Post a Comment