ساری دنیا کو تماشا نہ بنا، سامنے آ
میری وحشت کے پسندیدہ خدا، سامنے آ
میرے دشمن نے مجھے خط میں گزارش کی ہے
درگُزر چھوڑ کے شمشیر اٹھا، سامنے آ
ہم نے جوکر کو بھی سرکس میں پُکارا ایسے
روتی آنکھوں کو ہنسانے کی دعا، سامنے آ
اس کے مرقد پہ، سحر شام بسیرا کر کے
میں نے روتے ہوئے ماں سے یہ کہا، سامنے آ
شکوے تجھ سے تو ہزاروں کیے آ کر میں نے
مجھ پہ حق تُو بھی کبھی اپنا جتا، سامنے آ
شعیب زمان
No comments:
Post a Comment