Thursday, 21 September 2023

یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں

 تمہارے لیے خط


یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں 

مجھے ٹوٹتی سی نظر آ رہی ہیں

تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں

پھر بھی اس خط میں 

اپنے سبھی پاس ورڈ اور گھر کا پتہ لکھ رہی ہوں

اگر تم مِرے بعد آؤ تو اس گھر کی رونق سے ہو کر 

ذرا میرے ویران کمرے میں جانا

وہاں فلسفے کی کتابوں کے پیچھے ہرے رنگ کا فولڈر دیکھ لینا

اسے کھولنا، اس میں برسوں پرانے 

تمہارے سبھی خط پڑے ہیں

خطوں میں وہ محسن کی نظمیں

تِری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور

اور، مِری سوچ کے گہرے پانی میں

اور فیض کی وہ غزل، کیسے تھی؟

ہاں، نصیب آزمانے کے دن آ رہے ہیں

وغیرہ

وہ سب خط پڑے ہیں

اُدھر فولڈر سے پرے دائیں جانب رجسٹر پڑا ہے

وہی جس میں عبدل کے بارے میں تم نے کہانی لکھی تھی

کہانی کے صفحوں میں گجرے(جو اب سرمئی ہو گئے ہیں) پڑے ہیں

کہیں پھول کی پتیاں بھی پڑی ہیں

اسی میں کہیں ٹوٹی مالا کے موتی ہیں 

(مالا کبھی میں نے پہنی نہیں تھی تو پھر کیسے ٹوٹی؟ 

اگر یاد آیا تو یہ بھی لکھوں گی)

وہیں پیچھے اک ٹی سی ایس کا بڑا سا جو ڈبہ پڑا ہے

(وہاں سترہ رنگوں کی وہ چوڑیاں ہیں کہ 

جب میں نے تم سے کہا تھا؛ مجھے بوجھ لگتی ہیں

اور تم نے اگلے ہی دن بھیج دی تھیں)

اسے کھولنا مت کہ وہ تم سے شرمندہ ہوں گی

کبھی میں نے پہنیں نہیں

کیونکہ وعدہ یہی تھا کہ تم اپنے ہاتھوں سے

اور ہاں! وہیں ایک خاکی لفافہ پڑا ہے

مِری ابتدائی دنوں کی سبھی شاعری

اس میں بکھری پڑی ہے

وہ نظمیں جنہیں فون پر سن کے ہنستے تھے تم

اور وہ غزلیں کہ جن میں غلط قافیے تھے 

(ابھی تک غلط ہیں)

یہ سب میں نے دل سے لگا کر رکھا ہے

مِرے ہاتھ پر ہاتھ رکھو ذرا

اور یہ وعدہ کرو تم یہ سب اپنے دل سے لگا کر رکھو گے

تمہیں آخری بار جی بھر کے دیکھوں یہ جی چاہتا ہے 

مگر میری جاں! اب یہ ممکن نہیں ہے

تمہیں یاد ہے نا کہ دو سال پہلے دسمبر کی وہ آٹھویں شام تھی


فریحہ نقوی

No comments:

Post a Comment