ہم دونوں
ہم دونوں کی اتنی پکی یاری تھی
ہم دونوں کو دیکھ کے دنیا جلتی تھی
ہم دونوں اک باغ میں کھلنے والے پھول
ہم دونوں کی جوڑی اچھی لگتی تھی
ہم دونوں تو فیض کی نظموں جیسے تھے
ہم دونوں اک اچھے شعر کے مصرعے تھے
ہم دونوں نے ساتھ میں ہولی کھیلی تھی
ہم دونوں نے ساتھ میں روزے رکھے تھے
ہم دونوں کو پڑھنا مشکل تھا ہی نہیں
ہم دونوں آسان سوالوں جیسے تھے
ہم دونوں نے ساتھ میں اڑنا سیکھا تھا
ہم دونوں معصوم پرندوں جیسے تھے
ہم دونوں کی منزل ایک ہی ہوتی تھی
ہم دونوں کے سارے رستے ایک ہی تھے
ہم دونوں اب سوکھی جھیل میں بیٹھے ہیں
ہم دونوں نے سات سمندر دیکھے تھے
ہم دونوں کے ہاتھ سے کیسے بیج لگے
ہم دونوں کے سامنے کیسی فصلیں ہیں
ہم دونوں نے خود ہی بانٹ لیے فرقے
ہم دونوں کے سامنے کیسی حدیں ہیں
ہم دونوں ہیں ماضی کے کچھ قِصّوں سے
ہم دونوں تو ردّی میں کچھ ناول ہیں
ہم دونوں مسمار ہوئی کچھ قبروں سے
ہم دونوں تو چلتی پھرتی لاشیں ہیں
ہم دونوں گر کھولیں اپنی آنکھوں کو
ہم دونوں گر آج بھی بیٹھ کے سوچیں تو
ہم دونوں کو ایک ہی بات سمجھنی ہے
ہم دونوں کی سوچیں کیسے بدلیں تھیں
ہم دونوں کو گمراہ کس نے رکھا تھا
ہم دونوں تو ایک ہی پیڑ کے پتے ہیں
ہم دونوں تو ایک ہی پھول کی خوشبو ہیں
نثار سلہری
No comments:
Post a Comment