Thursday, 21 September 2023

ہم دونوں کی اتنی پکی یاری تھی

 ہم دونوں


ہم دونوں کی اتنی پکی یاری تھی

ہم دونوں کو دیکھ کے دنیا جلتی تھی

ہم دونوں اک باغ میں کھلنے والے پھول

ہم دونوں کی جوڑی اچھی لگتی تھی

ہم دونوں تو فیض کی نظموں جیسے تھے

ہم دونوں اک اچھے شعر کے مصرعے تھے

ہم دونوں نے ساتھ میں ہولی کھیلی تھی

ہم دونوں نے ساتھ میں روزے رکھے تھے

ہم دونوں کو پڑھنا مشکل تھا ہی نہیں

ہم دونوں آسان سوالوں جیسے تھے

ہم دونوں نے ساتھ میں اڑنا سیکھا تھا

ہم دونوں معصوم پرندوں جیسے تھے

ہم دونوں کی منزل ایک ہی ہوتی تھی

ہم دونوں کے سارے رستے ایک ہی تھے

ہم دونوں اب سوکھی جھیل میں بیٹھے ہیں

ہم دونوں نے سات سمندر دیکھے تھے

ہم دونوں کے ہاتھ سے کیسے بیج لگے

ہم دونوں کے سامنے کیسی فصلیں ہیں

ہم دونوں نے خود ہی بانٹ لیے فرقے

ہم دونوں کے سامنے کیسی حدیں ہیں

ہم دونوں ہیں ماضی کے کچھ قِصّوں سے

ہم دونوں تو ردّی میں کچھ ناول ہیں

ہم دونوں مسمار ہوئی کچھ قبروں سے

ہم دونوں تو چلتی پھرتی لاشیں ہیں

ہم دونوں گر کھولیں اپنی آنکھوں کو

ہم دونوں گر آج بھی بیٹھ کے سوچیں تو

ہم دونوں کو ایک ہی بات سمجھنی ہے

ہم دونوں کی سوچیں کیسے بدلیں تھیں

ہم دونوں کو گمراہ کس نے رکھا تھا

ہم دونوں تو ایک ہی پیڑ کے پتے ہیں

ہم دونوں تو ایک ہی پھول کی خوشبو ہیں


نثار سلہری

No comments:

Post a Comment