کتنے خواب پڑے ہوتے ہیں آنکھوں کی الماری میں
سارے اک دن کھو جاتے ہیں عورت سے گھر داری میں
اماں بابا کے سائے میں جو گھر کی شہزادی تھی
سپنے بیچنے آئی ہے وہ مجبوری ناداری میں
سچ کہتے ہیں خوابوں کی تعبیریں اُلٹی ہوتی ہیں
مجھ کو خواب میں ملنے والے چھوڑ گئے بیداری میں
ماضی حال و مستقبل کے دھاگے اُلجھے رہتے ہیں
گِرہیں کھولتی رہتی ہوں میں تنہا شب بیداری میں
گھر کی خستہ دیواروں کو آپ گِرانا پڑتا ہے
ہوتا ہے تعمیر کا پہلو چیزوں کی مِسماری میں
میں بھی لڑتے لڑتے اس کے سینے سے لگ جاتی ہوں
شکوے دل سے بہہ جاتے ہیں سارے گِریہ زاری میں
وہ بھی تنہا رات گئے تک اب سڑکوں پر پِھرتا ہے
میرے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں کھانے کی تیاری میں
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment