Wednesday, 27 September 2023

کتنے خواب پڑے ہوتے ہیں آنکھوں کی الماری میں

 کتنے خواب پڑے ہوتے ہیں آنکھوں کی الماری میں

سارے اک دن کھو جاتے ہیں عورت سے گھر داری میں

اماں بابا کے سائے میں جو گھر کی شہزادی تھی

سپنے بیچنے آئی ہے وہ مجبوری ناداری میں

سچ کہتے ہیں خوابوں کی تعبیریں اُلٹی ہوتی ہیں

مجھ کو خواب میں ملنے والے چھوڑ گئے بیداری میں

ماضی حال و مستقبل کے دھاگے اُلجھے رہتے ہیں

گِرہیں کھولتی رہتی ہوں میں تنہا شب بیداری میں

گھر کی خستہ دیواروں کو آپ گِرانا پڑتا ہے

ہوتا ہے تعمیر کا پہلو چیزوں کی مِسماری میں

میں بھی لڑتے لڑتے اس کے سینے سے لگ جاتی ہوں

شکوے دل سے بہہ جاتے ہیں سارے گِریہ زاری میں

وہ بھی تنہا رات گئے تک اب سڑکوں پر پِھرتا ہے

میرے ہاتھ بھی جل جاتے ہیں کھانے کی تیاری میں


فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment