Saturday, 23 September 2023

ترے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں

تِرے خیال کے جب شامیانے لگتے ہیں

سخن کے پاؤں مِرے لڑکھڑانے لگتے ہیں

جو ایک دست بُریدہ سوادِ شوق میں ہے

علم اُٹھائے ہوئے اس کے شانے لگتے ہیں

میں دشت ہُو کی طرف جب اُڑان بھرتا ہوں

تِری صدا کے شجر پھر بُلانے لگتے ہیں

خبر بھی ہے تجھے اس دفترِ محبت کو

جلانے جلنے میں کیا کیا زمانے لگتے ہیں

یہ گَرد ہے مِری آنکھوں میں کِن زمانوں کی

نئے لباس بھی اب تو پُرانے لگتے ہیں

تمہارے میوۂ لب کو نِگہ سے چُھوتے ہی

عجیب لذتِ نایاب پانے لگتے ہیں

جو سنسناتا ہے کُوفہ و نینویٰ کا خیال

گلوئے جاں کی طرف تِیر آنے لگتے ہیں


امیر حمزہ ثاقب

No comments:

Post a Comment