پرو دئیے مِرے آنسو ہوا نے شاخوں میں
بھرم بہار کا باقی رہے نگاہوں میں
صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
کچھ اتنی تیز ہے سُرخی کہ دل دھڑکتا ہے
کچھ اور رنگ پسِ رنگ ہے گُلابوں میں
سپُردگی کا نشہ ٹوٹنے نہیں پاتا
انا سمائی ہوئی ہے وفا کی بانہوں میں
بدن پہ گرتی چلی جا رہی ہے خواب سی برف
خنک سپیدی گھُلی جا رہی ہے سانسوں میں
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment