میں کیسے بھول سکتی ہوں حسیں منظر کراچی کے
مِری یادوں میں بستے ہیں وہ بحر و بر کراچی کے
مِری ہر ایک مشکل میں دلاسہ مجھ کو دیتے تھے
مِرے ہمراز ہیں اب تک وہ چارہ گر کراچی کے
مِری ہر ایک الجھن کا وہ کوئی حل بتاتے تھے
میں کیسے بھول سکتی ہوں سبھی دفتر کراچی کے
میں دنیا میں خلاؤں کو ابھی تسخیر کرتی ہوں
بدن میں ہو گئے پیوست بال و پر کراچی کے
مجھے وہ سیپ سے نکلے ہوئے موتی سے لگتے ہیں
لبِ ساحل پڑے ہوتے ہیں جو کنکر کراچی کے
جہاں سے روز خوشبو کے حسیں جھونکے گزرتے ہیں
کھلے ہیں آج بھی دل میں وہ بام و در کراچی کے
فضاؤں سے ارم! وہ رات کا منظر کہوں کیسے
ستاروں کی طرح لگتے ہیں مجھ کو گھر کراچی کے
ارم زہرا
No comments:
Post a Comment