دکھائی دیتے ہیں دھند میں جیسے سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
مِرے محلے کا آسماں سُونا ہو گیا ہے
بلندیوں پہ اب آ کے پیچے لڑائے کوئی
وہ زرد پتے جو پیڑ سے ٹوٹ کر گرے تھے
کہاں گئے بہتے پانیوں میں، بلائے کوئی
ضعیف برگد کے ہاتھ میں رعشہ آ گیا ہے
جٹائیں آنکھوں پہ گِر رہی ہیں اٹھائے کوئی
مزار پہ کھول کر گریباں دعائیں مانگیں
جو آئے اب کے تو لوٹ کر پھر نہ جائے کوئی
گلزار
No comments:
Post a Comment