Tuesday 26 September 2023

تنہائیوں کے دشت میں بھاگـے جو رات بھر

تنہائیوں کے دشت میں بھاگـے جو رات بھر

وہ دن کو خاک جاگے گا، جاگے جو رات بھر

فکرِ معاش نے انہیں قصہ بنـا دیا

سجتی تھیں اپنی محفلیں آگے جو رات بھر

وہ دن کی روشنی میں پریشان ہو گیا

سُلجھا رہا تھا بخت کے دھاگے جو رات بھر

کیا کیا نہ پیاس جاگے مِرے دل کے دشت میں

حسرت بھی ایک آگ ہے لاگے جو رات بھر

دشتِ غزل میں جانے کہاں تک چلے گئے

سُوئے غزال قافیہ بھاگے جو رات بھر


عطا تراب

No comments:

Post a Comment