مرتا ہے تو جینے کی دوا کیوں نہیں دیتے
بیمار کو دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے
وہ دور کہ انسان کو تھا انساں پہ بھروسہ
اس گزرے زمانے کو صدا کیوں نہیں دیتے
اک بوجھ ہے دل پر تو بھلا کیوں نہیں روتے
آئینے کو شبنم سے جِلا کیوں نہیں دیتے
ہر شخص ہے سہما ہوا طوفانِ بلا سے
طوفاں کو میرے گھر کا پتا کیوں نہیں دیتے
ہر اسم کہاں اس کو یہ پوشاک خوش آئے
دانش کو لہو کی یہ قبا کیوں نہیں دیتے
عقیل دانش
No comments:
Post a Comment