Monday 25 September 2023

مرتا ہے تو جینے کی دوا کیوں نہیں دیتے

 مرتا ہے تو جینے کی دوا کیوں نہیں دیتے

بیمار کو دامن کی ہوا کیوں نہیں دیتے

وہ دور کہ انسان کو تھا انساں پہ بھروسہ

اس گزرے زمانے کو صدا کیوں نہیں دیتے

اک بوجھ ہے دل پر تو بھلا کیوں نہیں روتے

آئینے کو شبنم سے جِلا کیوں نہیں دیتے

ہر شخص ہے سہما ہوا طوفانِ بلا سے

طوفاں کو میرے گھر کا پتا کیوں نہیں دیتے

ہر اسم کہاں اس کو یہ پوشاک خوش آئے

دانش کو لہو کی یہ قبا کیوں نہیں دیتے


عقیل دانش

No comments:

Post a Comment