ہر بات جس کی تھی کبھی للکار کی طرح
خاموش آج ہے وہی دیوار کی طرح
مشاطۂ سیاستِ حاضر بھی دنگ ہے
اُلجھی ہے بات گیسُوئے خمدار کی طرح
اس کو سفارشوں سے ملی ہے یہ برتری
وہ آدمی کھڑا ہے جو مینار کی طرح
اونچائی ہے نصیب تو اِترائیے نہیں
گِر جائیے گا سایۂ دیوار کی طرح
نکلی ہے جو بھی بات لبِ بے مثال سے
دل میں اُتر گئی ہے وہ تلوار
کس کس کو ہم سلام کریں جا کے اے شہود
ہر آدمی ہے اس جگہ سرکار کی طرح
شہود عالم آفاقی
No comments:
Post a Comment