راز دل کیوں نہ کہوں سامنے دیوانوں کے
یہ تو وہ لوگ ہیں اپنوں کے نہ بیگانوں کے
وہ بھی کیا دور تھے ساقی! تِرے مستانوں کے
راستے راہ تکا کرتے تھے مے خانوں کے
بادلوں پر یہ اشارے تِرے دیوانوں کے
ٹکڑے پہنچے ہیں کہاں اُڑ کے گریبانوں کے
راستے بند کئے دیتے ہو مے خانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
نہ اذاں دیتا نہ،۔ ہوشیار برہمن ہوتا
در تو اس شیخ نے کھلوائے ہیں بت خانوں کے
آپ دن رات سنوارا کریں گیسُو تو کیا؟
کہیں حالات بدلتے ہیں پریشانوں کے
منع کر گریۂ شبنم پہ نہ یہ پھول ہنسیں
لالے پڑ جائیں گے اے بادِ صبا جانوں کے
کیا زمانہ تھا اِدھر شام اُدھر ہاتھ میں جام
صبح تک دور چلا کرتے تھے پیمانوں کے
وہ بھی کیا دن تھے اِدھر شام اُدھر ہاتھ میں جام
اب تو رستے بھی رہے یاد نہ مے خانوں کے
آج تک تو مِری کشتی نے نہ پائی منزل
قافلے سینکڑوں گم ہو گئے طوفانوں کے
خاک صحرا پہ لکیریں ہیں انہیں پھر دیکھو
کہیں یہ خط نہ ہوں لکھے ہوئے دیوانوں کے
دیکھیے چرخ پہ تارے بھی ہیں کیا بے ترتیب
جیسے بکھرے ہوئے ٹکڑے مِرے پیمانوں کے
ہاتھ خالی ہیں مگر ملکِ عدم کا ہے سفر
حوصلے دیکھیے ان بے سر و سامانوں کے
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں جو کعبہ میں قمر
ایسے ہوتے ہیں نکالے ہوئے بت خانوں کے
قمر جلالوی
No comments:
Post a Comment