Friday, 15 September 2023

جو سر بریدہ ہوئے ان پہ آشکار ہوں میں

 جو سر بریدہ ہوئے ان پہ آشکار ہوں میں

وگرنہ کس کو خبر تھی کہ تیز دھار ہوں میں

گزر چکا ہے کہ گزرے گا کچھ نہیں معلوم

وہ اک لمحہ کہ اب جس کا انتظار ہوں میں

بڑا عجیب ہے جیسا بھی ہے طلسمِ وجود

کبھی کبھار نہیں ہوں کبھی کبھار ہوں میں

یہ قرض تجھ سے چکایا نہ جا سکے گا کبھی

تیرے بدن پہ تری روح پہ ادھار ہوں میں

وہ جن کو پار اترنا ہے کس قدر خوش ہیں

کہ اے چڑھے ہوئے دریا! ترا اتار ہوں میں

ہوا نے جب سے تری خاکِ تن میں رکھا ہے

کہاں تو ایک نہیں تھا کہاں ہزار ہوں میں

کسے سمیٹ رہے ہیں یہ دو جہاں مل کے

یہ کون ٹوٹ گیا کس کا انتشار ہوں میں

تمام ذات کو آئینہ کرنے والے سن

کہ روشنی کی طرح ترے آر پار ہوں میں


ابھیشیک شکلا

No comments:

Post a Comment