جو سر بریدہ ہوئے ان پہ آشکار ہوں میں
وگرنہ کس کو خبر تھی کہ تیز دھار ہوں میں
گزر چکا ہے کہ گزرے گا کچھ نہیں معلوم
وہ اک لمحہ کہ اب جس کا انتظار ہوں میں
بڑا عجیب ہے جیسا بھی ہے طلسمِ وجود
کبھی کبھار نہیں ہوں کبھی کبھار ہوں میں
یہ قرض تجھ سے چکایا نہ جا سکے گا کبھی
تیرے بدن پہ تری روح پہ ادھار ہوں میں
وہ جن کو پار اترنا ہے کس قدر خوش ہیں
کہ اے چڑھے ہوئے دریا! ترا اتار ہوں میں
ہوا نے جب سے تری خاکِ تن میں رکھا ہے
کہاں تو ایک نہیں تھا کہاں ہزار ہوں میں
کسے سمیٹ رہے ہیں یہ دو جہاں مل کے
یہ کون ٹوٹ گیا کس کا انتشار ہوں میں
تمام ذات کو آئینہ کرنے والے سن
کہ روشنی کی طرح ترے آر پار ہوں میں
ابھیشیک شکلا
No comments:
Post a Comment