Tuesday 19 September 2023

جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

 جسم کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلتے رہیے

دھوپ میں برف کی مانند پگھلتے رہیے

یہ تبسم تو ہے چہروں کی سجاوٹ کے لیے

ورنہ احساس وہ دوزخ ہے کہ جلتے رہیے

اب تھکن پاؤں کی زنجیر بنی جاتی ہے

راہ کا خوف یہ کہتا ہے; کہ چلتے رہیے

زندگی بھیک بھی دیتی ہے تو قیمت لے کر

روز فریاد کا انداز بدلتے رہیے​


معراج فیض آبادی

No comments:

Post a Comment