اپنے کمرے میں پِچھلے
چار گھنٹے سیدھے لیٹے
پنکھے کو تکتے گزر چکے ہیں
دماغ الٹے سیدھے خیالوں کی
جنگ سے لڑ رہا ہے
پنکھا مئی میں بھی
اتنی ہلکی سپیڈ پر ہے کہ
اس کے پر ہلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
ایک پر گھومتے ہوئے تمہارا نام لیتا ہے
دوسرا مجھے نفرت سے پکارتا ہے
تیسرا پِھر تمہارا نام لیتا ہے
اور میں تمہیں پکارتے دو پروں کو
حسرت بھری آنکھوں سے تک رہی ہوں
اور نفرت کے پر کو شرمندگی سے
یقین دلا رہی ہوں کہ
جانے والا لوٹ آئے گا
لیکن جانے کیوں
کمرے کی بتی اچانک بجھ گئی ہے
پنکھا چلتے چلتے بند ہو گیا ہے
اب مجھے کچھ بھی نہیں دکھ رہا
اپنا آپ بھی نہیں
دل کو اک انجانے خوف نے
مٹھی میں لے کر بہت زور سے دبایا ہے
اٹھنا چاہا لیکن تیز بخار سے تپتا وجود
سانسیں تیز ہو رہی ہیں
امید؟
امید کہاں ہو تم؟
امید، امید
امید سن رہی ہو؟
(خاموشی)
عنیزہ غفور
No comments:
Post a Comment