مت ڈالے اس سمندر میں کوئی جال محبت کا
میرے شہر میں پڑا ہے ابھی کال محبت کا
دل نے توڑی ہے جو سینے کی دیواردو وجہ ہوں گی
وہ ہو گا سامنے یا اٹھا ہے بھونچال محبت کا
پہلے میں بھی دنیا کو تجارت کی جگہ سمجھتا تھا
شاعری پڑھی تب آیا ہے خیال محبت کا
دنیا دار سیانے ہیں نفع نقصان دیکھیں گے
پروانہ جل کے کرتا ہے استقبال محبت کا
پچھلا سال تو ہوا تھا نذر نفرتوں کی
خدا جانے کیا پھل دے گا یہ سال محبت کا
وہ جواب میں پوچھتا ہے بنگلہ کار سونا
میں جب بھی کرتا ہوں سوال محبت کا
واعظ! بتا اسے میں دفن کہاں کروں
میری کہانی میں ہو گیا ہے انتقال محبت کا
کم و بیش یہی بچے گی میراث میرے بچوں کو
ادھوری کہانی وفا کی ملال محبت کا
اس کو بھی رلایا ہو گا خون کی آنسو آفتاب
رنگ جس نے بھی چنا ہے لال محبت کا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment