Sunday, 17 September 2023

مت ڈالے اس سمندر میں کوئی جال محبت کا

 مت ڈالے اس سمندر میں کوئی جال محبت کا

میرے شہر میں پڑا ہے ابھی کال محبت کا

دل نے توڑی ہے جو سینے کی دیواردو وجہ ہوں گی

وہ ہو گا سامنے یا اٹھا ہے بھونچال محبت کا

پہلے میں بھی دنیا کو تجارت کی جگہ سمجھتا تھا

شاعری پڑھی تب آیا ہے خیال محبت کا

دنیا دار سیانے ہیں نفع نقصان دیکھیں گے

پروانہ جل کے کرتا ہے استقبال محبت کا

پچھلا سال تو ہوا تھا نذر نفرتوں کی

خدا جانے کیا پھل دے گا یہ سال محبت کا

وہ جواب میں پوچھتا ہے بنگلہ کار سونا

میں جب بھی کرتا ہوں سوال محبت کا

واعظ! بتا اسے میں دفن کہاں کروں

میری کہانی میں ہو گیا ہے انتقال محبت کا

کم و بیش یہی بچے گی میراث میرے بچوں کو

ادھوری کہانی وفا کی ملال محبت کا

اس کو بھی رلایا ہو گا خون کی آنسو آفتاب

رنگ جس نے بھی چنا ہے لال محبت کا


آفتاب چکوالی

آفتاب احمد خان

No comments:

Post a Comment