اہلِ محبت تیرے در سے مات کھا گئے
غریب آدمی تھے زر سے مات کھا گئے
جو سمجھتے تھے خود کو ناقابلِ تسخیر
تجھے دیکھا تیری نظر سے مات کھا گئے
آدھے شہر کو لے ڈوبا تیری آنکھ کا تجربہ
دریا کے تیراک تھے سمندر سے مات کھا گئے
اشک پینے کا ہنر جب سیکھ لیا تو پھر
رلانے والے میرے صبر سے مات کھا گئے
ان لوگوں پہ منزل کی خوشبو ہے حرام
زادِ راہ تھا مگر سفر سے مات کھا گئے
عشق ان دیکھا سودا تھا دیوانوں نے کیا
ہوش والے تو اگر مگر سے مات کھا گئے
کوئی مقابل نہ تھا بھرے شہر میں اس کے
جتنے ہلال تھے سب بدر سے مات کھا گئے
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment