Thursday 14 September 2023

ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

 ساحل پہ یہ ٹوٹے ہوئے تختے جو پڑے ہیں

ٹکرائے ہیں طوفاں سے تلاطم سے لڑے ہیں

دل اپنا جلاؤ شب ظلمت کے حریفو

کیا غم ہے چراغوں کے اگر قحط پڑے ہیں

چڑھنے دو ابھی اور ذرا وقت کا سورج

ہو جائیں گے چھوٹے یہی سائے جو بڑے ہیں

منزل سے پلٹ آئے ہیں ہم اہل محبت

جو سنگ ہدایت تھے وہ رستے میں کھڑے ہیں

ہیں مسخ شدہ چہرے شہودؔ آپ سے برہم

آئینہ صفت آپ مقابل جو کھڑے ہیں


شہود عالم آفاقی

No comments:

Post a Comment